Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر2

گھر کی سیڑھیاں چڑھتے وہ لڑکھڑا سی گئ۔چاچو کے ڈور بیل بجانے کے تھوڑی دیر بعد ایک تندرست سی خاتون نے دروازہ کھولا۔
چونکہ وہ چاچو کے پیچھے کھڑی تھی اس لئے وہ اسے دیکھ نہ پائیں اور مایوس سی ہو گئیں۔
"وہ نہیں آئی کیا۔۔؟"
"آئی ہے بھئی۔۔۔یہ رہی میری بیٹی۔۔"چاچو نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر ان کے سامنے کیا تو اس نے دھیرے سے انہیں سلام کیا جو کہ اسے بغور دیکھ رہی تھیں۔ان کی آنکھوں میں اس کے لئے ستائش تھی۔کالے لمبے عبایا پر کورٹ شوز پہنے،ہاتھوں کو گلوز میں چھپائے یہ سانولی سلونی پیاری سی لڑکی انہیں بہت پسند آئی تھی۔اس کے سلام کا جواب دےکر وہ آگے بڑھیں اور اسے اپنے ساتھ لگاۓ اندر لے آئیں۔وہ بہت باتونی تھیں اس لئے ایک ہی بار میں اس سے سارے سوال کر لۓ جن کا جواب اس نے صرف _ہاں_ اور _نہیں_ میں دیا۔
"کیا ہوا آپ اکیلے کیوں آۓ ہیں۔۔ وہ آئی نہیں کیا" جمشید صاحب کو اکیلے دیکھ کر انہیں جیسے صدمہ لگا تھا
"ہاہاہا۔۔۔ آئی ہے میڈم ذرا دم تو لو۔"جنید صاحب نے مسکرا کر اپنے پیچھے چھپی عفیرہ کا ہاتھ پکڑ کر ان کے سامنے کیا
"یہ رہی میری بیٹی۔۔۔ پیاری ہے نا" چاچو نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر ان کے سامنے کیاتو اس نے دھیرے سے انہیں سلام کیا جو کہ اسے بے حد دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اس کے لئے ستائش تھی۔ کالے لمبے عبایا پر کورٹ شوز پہنے، ہاتھوں کو گلوز میں چھپاۓ یہ سانولی سلونی پیاری سی لڑکی انہیں بہت پسند آئی تھی۔اس کے سلام کا جواب دے کر وہ آگے بڑھیں اور دھیرے سے اسے گلے لگایا۔
"ماشاءاللہ بہت ہی پیاری ہے جنید" خوشی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔
"ارے بھئی ساری محبت یہیں دکھائیں گیں یا اندر لے جانے کا بھی ارادہ ہے"
"آؤ بیٹا اندر چلتے ہیں۔تھک گئی ہوگی" وہ اسے لئے اندر آئیں اور ملازمہ کو اس کا سامان رکھنے کو کہا۔
"اور بتاؤ گھر میں سب کیسے ہیں" وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔
"جی سب ٹھیک ہیں۔۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے"
"بس تھوڑی سی ٹینشن رہتی ہے" عبایا پہنے میک اپ سے پاک صاف چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا
"آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے چچی" اس دل سے تعریف کی
"شکریہ بیٹا۔۔۔ تم تھک گئ ہوگی۔۔ ملازمہ سے کہتی ہوں تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دے" انہوں نے ملازمہ سے کہا تو وہ ملازمہ کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی جو کہ اوپر سیڑھی چڑھ کر دوسری رو میں تھا۔
"واااہ اتنا خوبصورت کمرہ۔۔۔" کمرے کے وسط میں کھڑی وہ آنکھیں پھاڑ کر پنک اور وائٹ کلر کے کامبنیشن کے اس روم کی خوبصورتی اور اس گھر کے مکینوں کی چوائس کو دل سے سراہا تھا۔
"بی بی جی! آپ فریش ہو جائیے تو میں کھانا لاتی ہوں" ملازمہ جوس کا گلاس بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسے تائید کرتی باہر چلی گئی
"چل عفیرہ خود کی بھی صفائی کر لے۔۔کیسی گندی لگ رہی ہے تو" ملازمہ کے جانے کے بعد وہ اپنا سامان لے کر باتھ روم میں گھس گئ۔آدھا گھنٹے بعد جب وہ نکلی تو خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
گیلے بالوں کو سلجھا کر کیچر لگا کے دوپٹے کو نماز اسٹائل میں لپیٹنے کے بعد وہ نماز کے لیے کھڑی ہو  گئی۔نماز ادا کرکے جب اٹھی ہی تھی کہ ملازمہ کھانے کی ٹرے لیۓ اندر داخل ہوئی۔
"لیجیے بی بی جی۔۔ میڈم جی نے کہا ہے کہ کھانا کھاکر تھوڑی دیر آرام کر لیجئے" ملازمہ بیڈ پر ٹرے رکھتے ہوئے بولی۔
"شکریہ" اس نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
"میں چلتی ہوں" وہ سر ہلاکر کھانے کی طرف متوجہ ہو گئ۔کھانا بہت لذیز تھا یا شاید اس کی بھوک کی زیادتی کا اثر تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے لیٹ گئی تھوڑی ہی دیر میں وہ خواب و خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
دوپہر کے کھانے کے بعد جنید صاحب لان میں بیٹھے آفس کا کچھ کام کر رہے تھے کہ ان کے چاروں بیٹے ان کے آس پاس آکر بیٹھ گئے
"ڈیڈ آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کی کوئی بھتیجی آنے والی ہے۔۔ کیا ہوا ابھی تک آئی نہیں" فہد نے گلا کھنکھار کے بات شروع کی
" کیوں۔۔ تم لوگ کیوں پوچھ رہے ہو۔۔" جنید صاحب نے گھورتے ہوئے پوچھا تو چاروں کھسیا کر ہنسنے لگے۔پاس بیٹھی نازیہ بیگم نے ان کے اس انداز پر اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔دونوں ماں باپ جانتے تھے کہ وہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔
" آپ کی بھتیجی ہماری کزن بھی تو ہوئی۔۔ ہے ناں۔۔؟" احد نے باپ کو صفائی دیتے ہوئے ان تینوں سے بھی پوچھا تو سب ایک ساتھ'ہاں' میں سر ہلانے لگی۔
"لیکن وہ تم لوگوں کے سامنے نہیں آئیگی"
"لیکن کیوں۔۔" وہ چاروں ٹھنکے۔
"تم لوگوں کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے" جنید صاحب نے ان چاروں کو ایک ہی جملے گھسیٹا۔
"ہم لوگوں نے کیا کیا ہے ڈیڈ۔۔" دائم نے معصوم چہرہ بنایا۔
"ابھی تک تو کچھ نہیں کیا لیکن اس کے آنے کے بعد ضرور کچھ نہ کچھ کروگے۔۔۔میں تم لوگوں کی فطرت سے واقف ہوں" انہوں نے ان سب کو خشمگیں نظروں سے گھورا۔
"تم لوگ وعدہ کرو کہ تم لوگ اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کروگے" کافی دیر سے چپ بیٹھیں نازیہ بیگم بلآخر بول اٹھیں۔
"جی جی۔۔ وعدہ پکا وعدہ۔۔" ان چاروں نے جلدی سے فرمانبرداری دکھائی۔
"اپنے اس بھائی صاحب کو بھی بتا دینا جو گھر کو ہوٹل کی طرح استعمال کرتے ہیں" جنید صاحب نے اسد کی  غیر موجودگی پر چوٹ کی۔
"وہ آفس کے کام سے آؤٹ آف سٹی ہے ڈیڈ" احد نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
"میں سب سمجھتا ہوں برخوردار کے کاموں کی نوعیت اور تم لوگوں کی بہانے بازیاں" انہوں نے ان سب کو گھورا تو چاروں نے یہاں سے کھسک لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
نازیہ بیگم اپنی سبھی اولادوں کی فطرت سے بخوبی واقف تھیں۔ان کے سبھی لڑکے ایک نمبر کے فلرٹی اور ڈھیٹ تھ۔ وہ جو بھی وعدہ کرتے تھوڑی دیر بعد اسے توڑ بھی دیتے اسی لئے وہ ان سب کے وعدوں سے مطمئن نہیں تھیں۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
 رات کو کھانے کے وقت جب چاروں کو کوئی مہمان گھر میں نہ دکھا تو وہ جمشید صاحب اور نازیہ بیگم سے پوچھنے لگے۔
"کیا ہوا آپ کی بھیجتی آئی نہیں کیا؟"سوال دائم کی طرف سے ہوا
"آئی ہے اپنے کمرے میں سو رہی ہے" نازیہ بیگم کی طرف سے جواب آیا
"تو ہمیں بھی ملوایئے اس سے"احد نے خوش ہوکر کہا تو جمشید صاحب جو اخبار بینی میں مصروف تھے اسے گھور کر دیکھا اور ملازمہ سے عفیرہ کو بلانے کے لیے کہا۔
 " بڑے صاحب آپ کو نیچے بلا رہے ہیں".
" جی آپ چلئیے میں آرہی ہوں۔" اس کے کہنے پر ملازمہ چلی گئ۔ پھر اپنے گیلے بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کیا اور انہیں کھلا ہی رہنے دیا۔دوپٹہ سر پر درست کرتی جب وہ نیچے آئی تو وہ چاروں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔اس نے سٹپٹا کر نظریں جھکا لیں اور سلام کرکے بیٹھنے کے لئے  مناسب ‌جگہ ڈھونڈنے لگی کیونکہ وہ چاروں کچھ اس طرح بیٹھے تھے پورا صوفہ بھر گیا تھا۔
"ادھر آؤ بیٹی میرے پاس بیٹھو۔۔تم اپنی ماں کے پاس جاؤ" جمشید صاحب نے اپنے پاس بیٹھے صائم کو اٹھا کر اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جبکہ صائم منھ بناتا ان تینوں کے پاس چلا گیا جو کہ اس کی عزت افزائی پر اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس کے بعد جمشید صاحب نے سب سے اس کا تعارف کروایا اور ملازمہ سے کھانا لگانے کو کہا۔کھانے کی ٹیبل پر وہ چاروں اسے گھورے جا رہے تھے جس سے وہ ڈسٹرب ہو رہی تھی۔ 
کھانے کے بعد وہ جمشید صاحب سے اجازت لے کر اپنے روم میں چلی آئی اور سوچنے لگی کہ اب وہ سوئے گی کیسے۔۔ کیونکہ وہ کبھی اکیلی نہیں سوئی تھی اسی لیے اسے ڈر لگ رہا تھا۔
"چچی سے کہوں کہ مجھے اکیلے سوتے ہوۓ ڈر لگتاہے"اس نے سوچا۔
"نہیں کیا سوچیں گیں چچی کہ اتنی بڑی ہوکر
اکیلے سونے سے ڈرتی ہے اور جب ان کے بیٹوں کو پتا چلے گا تو کیا ہوگا.. توبہ توبہ کتنا مزاق اڑائیں گے." اپنی بکواس سوچوں کو دماغ کے کسی کونے میں دباکر وہ بیڈ پر آکر لیٹ گئی. ساری دعائیں سارے وظیفے جو اس کے دماغ میں آرہے تھے پڑھ کر اپنے اوپر کیا اور آخر میں اللّٰہ تعالیٰ کا نام لے کر ہمت کرکے لیٹ گئی.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
فجر کے وقت اس کی نیند کھلی وضو کرکے خلوص دل سے نماز پڑھی قرآن کی تلاوت کرکے باہر نکل کر ٹہلنے لگی۔گھر کے سارے فرد ابھی تک سو رہے تھے۔ اسے بوریت ہونے لگی تو وہ کچن میں آگئی جہاں ملازمہ چاۓ ناشتے کا انتظام کررہی تھی۔
" لائیے میں چاۓ بنا دیتی ہوں۔" اس نے پیاز کاٹتی ملازمہ سے کہا
"نہیں بی بی جی میں بنا لوں گی آپ آرام کیجئے" 
"نہیں آج میں چاۓ میں بناؤنگی پلیز" اس نے التجائیہ انداز میں کہا تو ملازمہ نے مسکرا کر اسے چاۓ بنانے کی اجازت دے دی۔اس نے جھٹ پٹ چاۓ بنائی اور ایک کپ چائے لیکر باہر لان میں رکھے صوفے پر بیٹھ کر میگزین پڑھتے ہوئے چاۓ پینے لگی۔تبھی جمشید صاحب بھی آگۓ تو اس نے جلدی سے انہیں سلام کیا۔
"بیٹا تم اتنا جلدی اٹھ گئی۔۔" سلام کا جواب دےکر وہ بھی پاس بیٹھ گئے۔
" میں تو ہمیشہ اسی ٹائم پر اٹھتی ہوں" 
" لیکن یہاں سب کی صبح دس بجے کے بعد ہوتی ہے"
"یہاں کوئی نماز نہیں پڑھتا۔۔؟" اس نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
 "کوئی بات نہیں اب آگے سے ضرور پڑھئے گا۔" اس نے مسکرا کر ان کی شرمندگی دور کرنے کی 
کوشش کی۔
"انشاءاللہ ضرور.." ایک عزم سے کہتے ہوئے وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ اور دونوں چاچا بھتیجی اپنے پسندیدہ ٹاپک پر بہس کرنے لگے.
"بڑے صاحب ناشتا لگ گیا ہے." وہ دونوں باتوں میں مگن تھے کہ ملازمہ نے آکر ناشتے کا کہا.
"چلو بیٹا ناشتا کر لیتے ہیں.. باتیں کرکے میرا پیٹ بالکل خالی ہو گیا ہے." جمشید صاحب ڈایئننگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے بولے تو وہ ان کے ساتھ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔
"آؤ بیٹا ناشتا کر لو پھر بعد میں جی بھر اپنے چاچو سے باتیں کر لینا." نازیہ بیگم جوس کا مگ ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولیں.
"آپ نے اپنا سب کچھ بنایا، مجھے بلا لیتیں میں بھی آپ کی ہیلپ کر دیتی." وہ جمشید صاحب کے پاس والی کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی.
"اکیلے کہاں بیٹا شاکرہ تھی نا ہیلپ کے لئے. اسی نے تو سب ریڈی کیا ہے میں نے تو صرف اسے مینیو بتایا تھا." نازیہ بیگم جوس کا گلاس جمشید صاحب کو دیتی ہوئی بولیں.
" تمہاری چچی کا پسندیدہ کام ہے آرڈر دیتا." جمشید صاحب نے بیوی کی طرف دیکھ کر شرارتی انداز میں کہا۔
"اب ایسا بھی نہیں ہے." 
" Good morning everyone."
 وہ سب باتوں میں مگن تھے کہ احد باآواز بلند کہتا ہوا اندر داخل ہوا اور نازیہ بیگم کے پاس والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا. اس کے بعد دائم، فہد اور صائم کی بھی کچھ اسی انداز سے انٹری ہوئی.
"کوئی دلچسپ چیز نیچے دکھ رہی ہے کیا جو اتنی دیر سے نیچے ہی دیکھا جا رہا ہے."  احد نے اسے لگاتار نیچے کی طرف دیکھتا پاکر بولا. ان سب کے ٹیبل پر آنے کے بعد سے وہ نظریں جھکائے ناشتا کر رہی تھی. ایک بار بھی اس کی نظریں اوپر نہیں اٹھی تھیں.
"نہیں کچھ بھی تو نہیں ہے." اس نے گڑبڑا لمحے بھر کو اس کی طرف دیکھا پھر جمشید صاحب کو دیکھنے لگی.
"کوئی بھی حیادار لڑکی تم لوگوں کو اس حلئے میں دیکھ کر نظریں جھکائے گی ہی نہ کہ تم لوگوں کو اپنی نظروں میں اتارے گی." جمشید صاحب کے کہنے پر پہلے تو ان سب ہونقوں کی طرح انہیں دیکھا پھر اپنے حلئے پر غور کرنے لگے.
"ہمارے حلئے کو کیا ہوا ہے ڈیڈ.. ہم تو بالکل ٹھیک ہیں." فہد نے دوبارہ اپنے اوپر نظریں دوڑائیں.
"کیا پہن رکھا ہے تم لوگوں نے... غور کیا اپنے پہناوے پر." جمشید صاحب کے کہنے پر ان چاروں نے دوبارہ اپنے پہناوے پر غور کیا جو کہ ٹراؤزر اور سلیولیس ٹی شرٹ پر مشتمل تھا.
"کسی مہمان کے سامنے کوئی ایسے حلئے میں آتا ہے.. شرم نہیں آتی تم لوگوں کو."
"کزن ہی تو ہے ڈیڈ.."
"تمہاری کزن ایک لڑکی بھی ہے." جمشید صاحب نے ' لڑکی' پر زور دیتے ہوئے کہا.
"اور بھی لڑکیاں ہماری کزنز ہیں ڈیڈ.. ان کے سامنے بھی تو ہم ایسی ہی ڈریسنگ کرتے ہیں." دائم کے جرح کرنے پر نازیہ بیگم نے گھور کر اسے دیکھا.
"عفیرہ اور ان میں بہت فرق ہے." 
" ہاں کیونکہ یہ آپ کی بھتیجی ہے." احد نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے ڈیڈ ہم آئندہ اس بات کا خیال رکھیں گے." صائم نے بہس کو دوسری طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر ہار مانتے ہوۓ کہا ورنہ ڈیڈ کا پارہ ہائی ہونے میں دیر نہیں تھی.
" اسد کب آرہا ہے؟" نازیہ بیگم نے بات بدلتے ہوئے کہا تو سب کے ساتھ عفیرہ نے بھی ان کی طرف دیکھا.
"شاید کل آجائے." یہ کہہ کر احد کر جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا. 
"میں چلتا ہوں اور تم لوگ بھی جلدی سے فارغ ہوکر کام میں لگو اپنے." جمشید صاحب اٹھتے بولے تو ان چاروں نے فرمانبرداری سے سر ہلا دیا.
"تو اسٹڈیز کیا ہیں آپ کی؟" جمشید صاحب کے جاتے ہی فہد اس کی طرف متوجہ ہو گیا. نازیہ بیگم اب بھی وہیں موجود تھیں. وہ جانتی تھیں جمشید صاحب کے سامنے وہ سب کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کریں گے لیکن ان کے جاتے ہی وہ سب اپنی جون میں واپس آجائیں گے.
"بی-اے آرٹس." اس نے مختصر جواب دیا.
""اور ہابیز..؟" 
"کچھ.. کچھ خاص نہیں بس کتابیں پڑھنا اور.. اور بس.." 
"اور ایج کیا ہے آپ کی..؟" صائم کے بے تکے سوال پر سب نے حیران ہو کر اسے دیکھا.
"فکر مت کرو تم سے تو کم ہی ہے میرے لعل.." احد نے ہنستے ہوئے کہا.
"تم لوگوں کو یونیورسٹی نہیں جانا؟" نازیہ بیگم نے انہیں اپنی جگہوں پر جمے ہوئے دیکھا تو انہیں ان سب کے ارادوں کا پتا لگ گیا تھا.
"نہیں مام.. ہماری اکلوتی چچازاد کزن آئی ہے.. اچھا نہیں لگتا اسے یوں گھر میں اکیلا چھوڑ دیں بور ہونے کے لئے اور خود باہر انجوائے کریں... اچھا نہیں لگتا ناں کیوں گائز.." فہد جو کافی دیر سے ان کی باتیں سن رہا تھا ان سب کی تائید حاصل کرتا ہوا بولا.
" انجوائے کون کرنے کو کہہ رہا ہے بچوں آفس جانے کو کہا جا رہا ہے." نازیہ بیگم بھی انہیں کی ماں تھیں. ان کی رگ رگ سے واقف تھیں.
"آج کے دن کون گنہگار آفس جاتا ہے ڈئیر مدر."
"کیوں آج کون سا خاص دن جو آفس نہیں جانا."
"آج سنڈے ہے مما." دائم نے انہیں یاد دلایا.
"ارے آج سنڈے ہے... ارے میں تو بھول ہی گئی.. آج تو تمہارے ڈیڈ کا پلان تھا.چلو عفیرہ تم بھی ریڈی ہو جاؤ جلدی سے." نازیہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی اس سے بھی بولیں تو وہ سب حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگے.
"کیسی تیاری مام.. کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ." احد ہکا بکا سا اپنی جگہ سے اٹھا.
"تمہارے ڈیڈ اور میں عفیرہ کو لے کر جا رہے ہیں آؤٹنگ پر." نازیہ بیگم نے مزے لیتے ہوئے کہا.
"اور ہم.. ہم کیا کریں گے یہاں اکیلے.." صائم نے مسکین سی صورت بنا کر کہا.
"نہیں بیٹا تم اکیلے کہاں ہو .. تمہارے ساتھ یہ تین بڑے بھائی بھی تو ہیں.. ان کی کمپنی میں تمہیں بالکل بھی اکیلا پن محسوس نہیں ہوگا." ان کا انداز شرارتی تھا.
"اچھا جائیں آپ بھی کیا یاد کریں گی کن سخی بیٹوں سے پالا پڑا ہے." فہد نے کچھ اس انداز سے ہاتھ ہلا کر کہا جیسے بہت احسان کر رہا ہو ان پر.
"میں جا رہا ہوں سونے خوامخواہ اتنی صبح اٹھ کر نیند خراب کی اپنی." دائم کے 'اتنی صبح' کہنے پر عفیرہ نے حیران ہو کر اسے دیکھا.
"چلو بیٹا ہم چلتے ہیں." نازیہ بیگم کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں اور وہ اپنے کمرے کی طرف.
تھوڑی دیر بعد تیار ہوکر جب وہ باہر آئیں تو جمشید صاحب ڈرائیو سے کچھ کہہ رہے تھے اور صائم موبائل پر گیم کھیلنے میں بزی تھا جبکہ احد اور فہد آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے.
"احد اگر تم لوگوں کا پلان ابھی باہر جانے کا ہے تو گھر اچھے سے لاک کرکے جانا." احد کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ایک گاڑی کافی اسپیڈ میں اندر داخل ہوئی اور ٹھیک جمشید صاحب کے پاس آکر رکی تھی.
"تم تو کل آنے والے تھے." نازیہ بیگم گاڑی سے نکلنے والے شخص کی طرف بڑھتی ہوئی بولیں جو جمشید صاحب سے ملنے کے بعد انہیں کی طرف بڑھ رہا تھا.
"کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ..؟" ان کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے وہ بولا.
"آؤٹنگ پر." نازیہ بیگم کے بجائے فہد بولا.
"اچھاااا.. ڈیڈ کے ساتھ واؤوووو.." اس نے بائیں آنکھ کا دباکر نازیہ بیگم کی طرف شرارتی نظروں سے دیکھا. عفیرہ جو دور کھڑی سب دیکھ رہی تھی اس کے اس انداز پر مسکرا دی.
"ہماری کزن کے ساتھ." صائم پر زور دے کر عفیرہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تو اس کے متوجہ ہونے پر اس نے گڑبڑا کر نظریں جھکالیں.
"کزن.. اب یہ کون سی نئی کزن پیدا ہو گئی ہماری." اس نے عبایا میں چھپی اپنی اس نئی سانولی سلونی کزن کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا جو اسے عجوبہ ہی لگی تھی.
"عفیرہ بیٹا وہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ." جمشید صاحب کے بلانے پر وہ ان کے پاس آکر کھڑی ہو گئی.
"اس سے ملو یہ ہے میری بیٹی عفیرہ.." ان کا بیٹی کہنا اسے شاید ہضم نہیں ہوا تھا.
"اور یہ ہے میرا بڑا بیٹا اسد ." نازیہ بیگم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
(اچھا تو یہ ہیں اسد صاحب.. شکل سے تو یہ ان سب کا بھی باپ لگتا ہے.) اس نے مسکرا کر سوچا اور ایک نظر اسے دیکھ کر نظریں جھکالیں.
"پیاری ہے نا." نازیہ بیگم نے مسکرا کر اس سے پوچھا جبکہ جمشید صاحب جلدی کا کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھے تھے.
(ہاہ پیاری..)
"جی بالکل.." اس نے دھیرے سے کہہ کر گاڑی کا دروازہ ان کے لئے کھولا.
"چلیں جلدی کریں آپ لوگوں کو دیر ہو رہی ہوگی." اس کے دروازہ کھولنے پر سب سے پہلے وہ اندر بیٹھی پھر نازیہ بیگم.
"گھر کا خیال رکھنا اسد ." نازیہ بیگم گاڑی کا انجن اسٹارٹ ہوتے ہی اس سے بولیں.
" جی بالکل آپ بے فکر ہوکر جائیں. میں ہوں یہاں." اس کے کہتے ہی گاڑی روانہ ہو گئی.
"تو کہاں تھے تم.؟" احد نے اس کی طرف دیکھا.
"وہیں جہاں اکثر ہوتا ہوں." اس نے شرارت سے آنکھ دبائی.
"کسی دن تم ڈیڈ سے بری طرح پٹوگے." فہد نے بھی ان کی باتوں میں حصہ لیا.
"کسی دن ناں.. ابھی وہ دن نہیں آیا.." یہ کہہ کر اس نے اندر کی طرف قدم بڑھا دیا جبکہ صائم پہلے ہی اندر جا چکا تھا.
"خود تو پٹوگے ہمیں بھی پٹواؤگے ." 
"اچھا زیادہ دماغ مت کھاؤ.. میں بہت تھک گیا ہوں آرام کرنے جا رہا ہوں کوئی مجھے ڈسٹرب مت کرنا." یہ کہہ کر وہ اپنے روم کی طرف بڑھ گیا. پھر تھوڑی دیر بعد دروازے سے نکال کر بولا " کہیں جانے سے پہلے مجھے بتاکر جانا ورنہ بہت برا حشر کروں گا."
"جی بہتر جناب.. اور کچھ.." احد زچ ہوکر کہا تو کہا تو وہ مسکرا دیا.

   1
0 Comments